یہ تحریر میں خالصتاً اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات اور سید الانبیاء ﷺ کی احادیث میں دی گئی ہدایات سے پیدا شدہ آخرت کی جوابدہی کے احساس سے لکھ رہا ہوں اور میرا یہ ایمان ہے کہ اس تحریر کی اس وقت جتنی ضرورت ہے‘ شاید اس کے بعد کبھی بھی نہ ہو ۔ میں مصلحت کے طور پر خاموشی بھی اختیار کر سکتا تھا کہ یہی سکہ رائج الوقت ہے‘ لیکن میں اپنے ہی اس شعر کی کسوٹی پر بے عمل ثابت ہو جاتا: فسادِ خلق سے چپ ہیں جو عقل و ہوش رکھتے ہیں اب ایسی نیند میں کیا کام ان کے رت جگا آئے روز حشر جوابدہی کا خوف ‘ رسول اکرمؐ کی نظروں سے گر جانے کی شرمندگی اور خود اپنے ہی کہے گئے الفاظ سے پلٹ جانے کی ہزیمت‘ یہ تینوں ایسی کیفیات ہیں کہ اگر میں یہ تحریر نہیں لکھوں گا تو شاید آئندہ سچ بولنے کا حوصلہ بہت مشکل سے پاسکوں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا’’اور گواہی کو نہ چھپائو اور جو اسے چھپا لے وہ گناہ گار ہے اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے(البقرہ:283)اس ضمن میںرسول اکرم ؐ نے فرمایا’’وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لیے پیش ہو جائے(بخاری ‘مسلم) یہ تمام احکامات اس وقت اور سخت ہو جاتے ہیں جب بپھرا ہوا ہجوم اور مسند پر بیٹھے ہوئے لوگ بغیر کسی تحقیق کے کسی کے ایمان کا فیصلہ کرنے لگ جائیں اور ان کے پیرو کار ان پر اندھا اعتماد کریں اور لوگ ان کے خوف سے خاموش رہیں۔ رسول اکرم ؐ نے ایسی گواہی اور الزام کے بارے میں فرمایا’’وہ آدمی بدترین گواہ ہے جو ظالم کا ساتھ دیتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کے لیے خود بخود حاضر ہو جاتا ہے‘‘۔ میں ان معاملات کا اکثر انتہائی اختصار سے تذکرہ کرتا ہوں جن کا تعلق روحانی دنیا‘ رجال الغیب یا رویائے صالحہ(سچے خوابوں) سے ہوتا ہے اگر کروں بھی تو ان اہل نظر کا تذکرہ نہیں کرتا‘ نام نہیں لیتا اور جس کے بارے میں کوئی بشارت کسی خواب میں بیان کی گئی ہو‘ اس کا ذکر نہیں کرتا۔ لیکن مجھے آج اس گواہی کے لیے ایک ایسے خواب کا ذکر کرنا ہے جو ایک نیک آدمی نے کوئی پانچ سال قبل دیکھا اور وہ پورا ہو گیا۔ بیس سے اکیس گریڈ میں جانے کے لیے ہمیں سٹاف کالج لاہور میں چھ ماہ کا ایک کورس کرنا پڑتا ہے اس کورس میں میرے ساتھ ایک بریگیڈئیر بھی تھے جو جرنیل پرموٹ ہونے کے لیے یہ کورس کر رہے تھے۔ اس کے بعد وہ آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ان کے ایک اور بریگیڈیئر دوست ایبٹ آباد میں بلوچ رجمنٹل سنٹر کے سربراہ تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل راحیل شریف کو فوج کا سربراہ مقرر ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ بلوچ رجمنٹل سنٹر کے بریگیڈئیر ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اہل نظر کا رابطہ رہتا ہے اور وہ خود بھی انتہائی باشرع اور متقی انسان ہیں۔
ایک دن میرے دوست بریگیڈیئر ان سے ملنے کے لیے ایبٹ آباد گئے تو وہاں کراچی کے ایک مشہور استاد بھی موجود تھے جن کی شہرت ہی تقویٰ و ریاضت کی بنیاد پر تھی۔ انہوں نے وہاں اپنا ایک خواب سنایا کہ ‘ میں نے خواب میں رسول اکرم ؐ کی محفل دیکھی جس میں حضرت عمرؓ فوج کے کسی ’’باجوہ‘‘ جرنیل کو ساتھ لے کر آئے اور بیٹھ گئے‘ رسول اکرم ؐ نے اسے کچھ عطا کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو جرنیل نے بائیں ہاتھ سے اسے لینا چاہا‘ جس پر حضرت عمرؓ نے بایاں ہاتھ پیچھے کر کے دایاں ہاتھ آگے کروایا اور رسول اکرم ؐ جو کچھ عطا کرنا چاہتے تھے وہ دے دیا گیا۔ کیا عطا کیا گیا اس کے بارے میں صاحب خواب کو کچھ علم نہیں‘‘ ایسی بات پر فوجیوں کے ایک دم کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دونوں بریگیڈیروں نے حساب لگایا تو اس وقت تین جاٹ جرنیل تھے۔تصویریں دکھائی گئیں جس پر ان پروفیسر صاحب نے خواب میں نظر آنے والے جرنیل کو پہچان لیا۔ کوشش کی گئی کہ کسی طرح پروفیسر صاحب کی ان سے ملاقات کروائی جائے‘ ایک دفعہ ان کی کراچی آمد پر ان سے پروفیسر صاحب کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے خواب بیان کیا۔ جنرل نے پوچھا‘ اس کی تعبیر کیا ہو سکتی ہے‘ جس پر ان پروفیسر صاحب نے کہا کہ ہو سکتا ہے آپ آرمی چیف ہو جائیں۔ جس پر جنرل نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا‘ میں اپنے گروپ میں 5نمبر پر ہوں اور مجھ سے سینئر پانچ وہ ہوں جو ہر حال میں مجھ سے زیادہ قابل بھی ہیں اور اثر ورسوخ بھی رکھتے ہیں۔ قصہ ختم ہو گیا ابھی تک کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی۔ لیکن اس پروفیسر صاحب کو اس طرح کی بے پرکی اڑانے کے الزام میں سخت تفتیش اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک دن یہ ملک چھوڑ گئے۔ اگر اس واقعہ کے کسی نے محنت کر کے کرداروں تک پہنچنا ہو تو مشکل بات نہیں ہے۔ اشارے دے دیے ہیں۔ لیکن پھر ایک دن پروفیسرصاحب کا یہ رویائے صالحہ(سچا خواب) سچ ہو گیا۔
چونکہ سچے خوابوں کے بارے میں رسول اکرم ؐ نے فرمایا’’ جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے‘ ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا جس کی باتیں سچی ہوں گی‘ مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے(بخاری‘ مسلم‘ ابو دائود‘ سنن ابن ماجہ) لیکن جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے تھوڑی دیر پہلے پروفیسر ساجد میر کے حوالے سے ایک بحث نے جنم لیا۔ اس خواب کو جاننے کے بعد میرے لیے اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ لیکن اس دور میں اللہ نے ایک اور صاحب ایمان علامہ زاہد الراشدی کو یہ گواہی دینے کی طاقت عطا کی اور انہوں نے کہا میں ہمسائیگی کے سبب پروفیسر ساجد میر کے الزام کی تردید کرتا ہوں جو انہوں نے ایک راسخ العقیدہ مسلمان پر لگایا۔ میرا دل اطمینان سے بھر گیا‘ اس لیے نہیں کہ میں کسی کے ایمان کے بارے میں فیصلہ چاہتا تھا‘ بلکہ اس لیے کہ رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں ان کی موجودگی اور خواب کے سچ ہونے کے بعد یہ یقین ضروری تھا کہ یہ شک ختم ہو جائے اور کوئی ان کے ایمان کی تصدیق کر دے ۔ آج ایک بار پھر اس گواہی کی ضرورت تھی۔
آسیہ کیس کے دوران میرے ہی شہر گجرات کے پیر افضل قادری نے جوش خطابت میں الزام لگا دیا۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ اس شخص کی کیا حالت ہو گی جو پاکستانی فوج میں یہ حلف نامہ داخل کرواتا ہے کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر سمجھتا ہوں اور قادیانی اور لاہوری گروہوں کو خارج از اسلام تصور کرتا ہوں‘ اس حلفیہ اقرار کے بعد اللہ اور اس کے رسولؐ کی کونسی شریعت ہے جو کسی کو کافر‘ دائرہ اسلام سے خارج اور قادیانی پکارے۔ اللہ کے رسول ؐ کے محبوب صحابی اسامہ بن زیدؓ کا واقعہ درج کر رہا ہوں۔ یہ صحیح بخاری میں درج ہے’’اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں’’ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا۔ میں اور ایک انصاری صحابیؓ ایک شخص مرداس بن عمر وسے بھڑ گئے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگا۔ انصاری پیچھے ہٹ گیا لیکن میں نے برچھی سے اسے قتل کر دیا۔ جب ہم لوٹے تو آنحضرت ؐ نے دریافت فرمایا‘ اسامہ کیا اس کے لاالہ الا اللہ کہنے کے باوجود تونے اسے قتل کر دیا۔ میں نے عرض کیا اس نے کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا۔ آپؐ بار بار کہتے جاتے تم نے کلمہ کے باوجود اسے قتل کر دیا‘ کیا تونے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ اسامہؓ فرماتے ہیں‘ میں نے سوچا کاش اس سے پہلے میں مسلمان نہ ہوتا۔ آپؐ فرماتے جاتے اللہ میں اسامہؓ کے اس فعل سے بری ہوں۔ یہ گواہی بہت ضروری تھی۔ کسی پیر، مفتی، مولوی اور شیخ الحدیث کے پاس کوئی جواز نہیں کہ کسی صاحب ایمان کو کافر کہیں جبکہ وہ حلفیہ اقرار کر چکا ہو۔ علامہ خادم حسین رضوی صاحب جن کی میں بہت عزت کرتا ہوں انہیں چاہیے کہ پیر افضل قادری صاحب سے رجوع کروائیں کہ اگر اللہ کے رسولؐ اپنے پیارے اسامہ بن زیدؓ کے فعل سے برأت کا اعلان کر سکتے ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے، کسی پیر،مفتی، قادری، رضوی کی کیا اوقات ہے۔
Source: https://roznama92news.com